اچھے خیالات اچھے الفاظ اچھا کردار
ان اصولوں پر کاربند رہنے سے ہی کوئی بھی شخص پارسی کہلاتا ہے اور نیک انسان مانا جاتا ہے، جو ان اصولوں سے انحراف کرے اسے گنہگار اور بدی کا پیروکار ماناجائے گا۔ زرتشت مذہب میں عقائد مندرجہ زیل ہیںi
عظیم اور عالمگیر خدا
" اھور امزدہ " عظیم خدا ہے،۔ وہ قادر مطلق اور عالم الغیب ہے، وہ سچائی ، روشنی(نور)، پاکیزگی، توازن، انصاف، ہمت(امید)، طاقت، اور صبر کی علامت ہے۔ وہ خالق ہے اور قائم رکھنے والا ہے، وہ اچھائی کو برائے سے الگ کر دینے والا، اور اچھائی کی حفاظت کرنے والا ہے، جو کوئی اچھائی چاہتا ہو وہ اسکی مدد کرتا ہے لیکن بدی کی طرف جانے والے کے پاس مکمل آزادی ہے۔
خدائی میں شراکت کا تصور
دنیا اچھائی اور بدی کی طاقتوں کا میدان جنگ ہے، " اھور امزدہ " نیکی کا خدا اور " اھریمن" بدی کا خدا ہے۔ آخر کار اچھائی کی فتح ہوگی اور برائی تباہ و برباد ہوجائے گی، ہر انسان کا نیکی بھیلانے اور بدی سے لڑنے میں رول ہے اور اس پر فرض ہے کہ وہ بدی اور آلودگی کے خلاف لڑے، جب تک کہ نیکی کا غلبہ نہ ہوجائے اور پاکیزگی طاری نہ ہوجائے۔ یہ طہارت حاصل کرنے کے لئے ہر انسان کو بدی سے دور رہنا ہوگا اور مذہبی احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔ یہ ساری تعلیمات " آھور امزدہ " کی طرف سے بھیجے گئے نبی " رازوراسترس" کی بتائی ہوئی ہیں اور ان پر عمل کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔ زرتشت ثنویت کا قائل تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ کائنات میں دو طاقتیں (یا دو خدا) کارفرما ہیں۔ ایک اہورا مزدا (یزداں) جو روح حق و صداقت ہے اور جسے نیک روحوں کی امداد و اعانت حاصل ہوتی ہے۔ اور دوسری اہرمن جو بدی ، جھوٹ اور تباہی کی طاقت کہلائی جاتی ہے ۔ اس کی مدد بد روحیں کياکرتی ہیں۔ خداؤں کی ازل سے کشمکشان ان دونوں طاقتوں کے درميان چلی آرہی ہے اور ہميشہ تک جاری رہے گی ۔ جد اہورا مزدا کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے تو دنیا ميں امن و سکون اور خوشحالی ہوتی ہے اور جب اہرمن غالب آتا ہے تو دنیا فسق و فجور ، گناہ و عصیاں برپا ہوتی ہيں اور اس کے نتیجے میں آفات ارضی و سماوی آتےہيں۔ پارسیوں کے اعتقاد کے مطابق نیکی کے خدا یزداں کی فتح ہوگی اور دنیا سے برائیوں اور مصیبتوں کا خاتمہ ھميشہ کے لئے ہو جائے گا۔
تخلیق کی الوہیت
آہور امزدہ نے دونوں کائناتوں روحانی اور مجسم کو اپنی زات سے تخلیق کیا ہے، چونکہ اسکی بنائی گئی ہر ایک چیز مقدس اورخدا کی زات ہے اس لئے ہر ایک انسان کی ذمہ داری ہے کہ زات خدا کو پاکیزہ رکھا جائے اور " اوستا" کو قائم کیا جائے۔
دھرتی کی روحانی فطرت اور انسان
آہور امزدہ نے پہلے اجسام بنائے پھر ان میں روحیں ڈالیں، پھر ان سب کو مادی وجود فراہم کرتے ہوئے دو الگ الگ کائناتوں میں بانٹ دیا، ایک نظر نہ آنے والی اور ایک ظاہر ہونے والی، وجود رکھنے والی اور محسوس کی جا سکنے والی کائنات میں آگ، ہوا،دھرتی، پیڑ پودے، جانور اور انسان شامل ہیں اور یہ سب ہی آہور امزدہ کا عکس ہیں ، انسان کی پیدائش اور دنیا میں انسان کی نسل بڑھانے کے لئے پہلے صرف ایک عورت اور مرد کو تخلیق کیا گیا جنکے نام مشائے اور ماشیانے ہیں، تمام انسان اسی جوڑے کی اولاد میں سے ہیں۔
فرشتوں کا خدائی میں حصہ
پارسی عظیم خدا کو مانتے ہیں،ایسا عظیم خدا جو اپنی زات کو ہر اک چیز میں بانٹ کر پیدا کرتا ہے، جبکہ اس نے 6 فرشتوں کو اپنی طاقت اور خدائی میں حصہ دار بنا رکھا ہے، جو دونوں کائناتوں میں مختلف امور سر انجام دینے پر معمور ہیں، اس لئے آہور امزدہ عظیم خدا ہونے کے باوجود خدائی میں دیگر زاتوں کو حصہ دار بناتا ہے۔ (یعنی وہ فرشتوں سے کام لینے کو شرک کہتا ہے اور واحد ہونے کے منسب سے ہٹ جاتا ہے)۔
بنیادی اچھائی اور انسانیت
زرشت مذہب کا ماننا ہے کہ انسان اور فطرت خداکے وجود کا حصہ ہیں، انسان پیدائشی طور پر معصوم پیدا ہوتا ہے، نہ کہ گنہگار، انسان کے پاس مکمل اختیار ہے کہ وہ پاکیزگی کوقائم رکھے یا بدی کی طرف نکل جائے، خدا اسکی زندگی میں جاری اعمال دیکھ کر ہی اسکی اگلی تقدیر کا فیصلہ کرتاہے " آہور امزدہ "علم دیتا ہے، سیدھا راستہ دکھاتاہے اس کے ساتھ ساتھ بدی کی نشاندہی بھی کردیتا ہے کہ اس طرف جانا منع ہے۔
عناصر کی حرمت
ظاہری اور روحانی کائناتوں میں سے روحانی کائنات میں بدی کا داخلہ منع ہے، بدی میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ اس کائنات میں موجود کسی بھی انسان، فرشتے یا عنصر کو چھو یا دیکھ بھی سکے۔ جبکہ ظاہری اور مادی دنیا میں بدی کو ہر ایک انسان اور عنصر میں شامل ہونے کا اختیار ہے لیکن تب تک نہیں جب تک کوئی انسان صرف اچھا سوچے، اچھا کہے اور اچھے اعمال کرتا رہے۔ انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ آگ، پانی اور دھرتی میں آلودگی(بدی) نہ پھیلائے، تاکہ وہ پاک رہیں کیونکہ انکا وجود خدا کا وجود ہے، آگ، پانی اور دھرتی میں نہ تو کوئی آلودگی پھیلائی جائے نہ ہی کوئی مردہ دفنایا جائے، بلکہ مردوں کو موت کے مینارے پر رکھ دیا جائے جہاں آہور امزدہ کی طرف سے پیدا کئے گئے پرندے اور حشرات اس مردے کو قدرتی اور متعین کئے گئے طریقے سے پاک کر دیں گے۔
انبیاء کی روایت
پارسی انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور انکی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں، انکے پہلے نبی کا نام" رازوراسترس" ہے اور انکی کتاب کا نام " زند اوستا" ہے۔ " رازوراسترس" کی تخلیق کائنات بناتے وقت ہی کر دی گئی تھی، اب ہر صدی کے بعد یہی نبی دوبارہ آتا رہے گا اور نیکی کی طرف بلاتا رہے گا، تیسرا اور آخری نبی " رازوراسترس" کا ہی بیٹا ہوگا جسکا نام " سوشیانت " جو دنیامیں آکر قیامت کی خبر دے گا اور پوری دنیا سے بدی کا خاتمہ کر دے گا۔
بدی اور کفارےکا تصور
انسانی وجود دنیا کے اندر بدی کے وجود کی وجہ سے ہر وقت خطرات میں گھرا ہے، جو انسان بھی خدا کے احکامات کی پیروری نہیں کرتا وہ ناپاک ہو جانے کے خطرات سے دوچار ہے، اچھا نہ سوچنا، اچھا نہ بولنا، اچھے کردار کا حامل نہ ہونا ، فحاشی کرنا، بچہ بازی، چوری، اجسام فطرت کو آلودہ کرنا، دیگر عقاید پر عمل پیرا ہونا، مردوں کو بہانا، جلانا یا دفن کرنا مردہ اجسام کو چھونا ، پانچ وقت کی عبادت نہ کرنا، خدا کے علاوہ کسی اور کے نام پر قربانی کرنا ، عقیدے کے مطابق شادی نہ کرنا وغیرہ وہ اعمال ہیں جن سے انسان ناپاک اور گہنگار ہو جاتا ہے۔
قربانی کی افادیت اور پنجگانہ عبادت
پارسی قربانی بھی کرتے ہیں اور انکی قربانی " یسنا" کہلاتی ہے، قربانی کرنے سے خدا سے قربت حاصل ہوتی ہے اور اسکے بہت قریب جا کر کلام کرنا ممکن ہو جاتا ہے، نیز گندگی اور بدی کم سے کم ہوتی جاتی ہے اور پاکیزگی کا حصول ممکن ہوتا جاتاہے، یہ قربانی کوئی مستند مذہبی نمائندہ ہی کر سکتا ہے جو صرف اور صرف آتشکدے میں ممکن ہے۔ یسنا میں کم و بیش دو گھنٹے لگاتار مذہبی مواد کو باآواز بلند پڑھا جاتا ہے، پہلے یسناکے موقع پر جانور بھی قربان کئے جاتے تھے تاہم ابھی کچھ معلومات کی روشنی میں کہا جا سکتاہے کہ یسنا کے بعد مقدس مشروب (دودھ)، مکھن اور ڈبل روٹی وغیرہ کا طعام کیا جاتا ہے۔ پارسیوں میں پانچ وقت کی عبادت رائج ہے اور پانچ وقت عبادت نہ کرنے والے کے لئے عذاب اور سزا مقرر ہے۔
مذہبی منتر اور گیت
مذہبی منتر اور گیت پاکیزگی پانے کے کا بہترین ذریعہ ہیں، جو آوشن زبان میں ہوتے ہیں یا پھر سنسکری زبان میں، یہ منتر یا گیت خدا کو خوش کرنے اور اسکی قربت کے حصول کے لئے گائے جاتے ہیں جس سے انسان اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے ۔ یہ تمام منتر یا گیت بھی اچھا سوچو، اچھا بولو، اچھا کردار ادا کروکے فلسفے پر مشتمل ہوتے ہیں۔
موت کے بعد کی زندگی پر یقین
موت، جسم سے زات خدا اور روح کے خروج کا نام ہے، جسم سے جب پاکیزگی اور نور مکمل طور پر ختم ہو جائے تب کوئی بھی انسان مر جاتاہے، مرنے کے بعد مردے کی روح تین دن تک اسکے جسم کے آس پاس گھومتی رہتی ہے اور پھر روحوں کے رکھوالے" دائنہ" کے ساتھ روحانی دنیا کے سفر پر نکل جاتی ہے،جہاں اچھے خیالات، اچھے الفاظ اور اچھے کردار کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے اک پل پر لے جایا جاتا ہے جہاں اچھائی کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں عارضی طور پر جنت اور تعداد کم ہونے کی صورت میں عارضی طور پر سرد جہنم میں پھینک دیا جاتاہے۔ (غالبا پل صراط جیسا کوئی عمل )، یہ عارضی ٹھکانے ہیں اسکے بعد قیامت آئے گی، روز محشر بپا ہوگا اور فائنل حساب کتاب کے بعد اچھائی کے حامل افراد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت ملے گی، جو بہت خوبصورت روشن اور خوشی کا ٹھکانہ ہے، ناپاک افراد کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا جو بہت تاریک اور منجمد کر دینے سے بھی زیادہ سرد ہے، جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب اسکا مقدر ہوگا۔
روز قیامت کا یقین
تین ہزار سال کے جاری اس عہد کے اختتام پر بدی کی تمام قوتوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا اسکے بعد قیامت آئے گی، سب انسانوں کا کڑا احتساب ہوگا، تابعداروں لئے لئے انعام کرام اور ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہوگی جبکہ ناپاک اور گہنہگاروں کے لئے سخت عذاب ہوگا۔
زرتشت-zoroastrianism-in-urdu-part-2-
0 Comments